زندگی بدل جائے ------------حسن نثار--------------
طائف کے بدکار، بدکردار اوباشوں کو پہاڑوں کے درمیان یوں پیس کے رکھ دیا جاتا جیسے چکی کے دو پاٹوں کے درمیان اناج پستا ہے لیکن نہیں، رحمت و دانش کی پہلی اور آخری نورانی علامت نے فرمایا، ’’شاید ان کی اولادوں میں سے کوئی اسلام قبول کر لے ‘‘(مفہوم) لیکن ہمارے بیشمار جنونیوں کو اس اتم ترین رحمت و حکمت کی کبھی ہوا تک نہ لگی کہ رحمت و حکمت کا امتزاج ہوتا کیا ہے۔
میں نے یہ خبر ٹی وی پر سنی تو دیر تک گم سم بیٹھا سوچتا رہا کہ جب جسم بھٹکتے ہیں تو کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طرح منزل ڈھونڈ ہی لیتے ہیں لیکن جب روحیں ہی رستہ بھول جائیں تو پھر وہی ہوتا ہے جو تسلسل سے ہمارے ساتھ ہو رہا ہے اور جانے کب تک ہوتا رہے گا کہ کچھ اعمال کی سزا ان کے خیال کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے ۔
وہ جو زندگی بھر پوری توانائی کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار رہا ۔یہ ہے ایک ڈچ سیاست دان اور ہالینڈ کا سابق رکن اسمبلی جورم وین کلیورن جو اسلامی تعلیمات اور شعائر کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔ 39سالہ کلیورن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کتاب لکھنے بیٹھا تو تیاری کے دوران اسلام پر لکھی گئی مختلف کتابوں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے وہ بتدریج اندھیرے سے روشنی کی طرف منتقل ہونا شروع ہو گیا۔
وہ اپنے لیڈر گیرٹ ولڈرز کا دست راست تھا اور فریڈم پارٹی کا رکن اسمبلی بھی جس نے سات سال تک اسمبلی میں اسلام مخالف بل پیش کئے اور مسلمانوں کے خلاف بھر پور مہمات چلائیں۔اس کے ایک ساتھی نے بھی اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہی کچھ کیا لیکن پھر اسی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بالآخر اس نے بھی اسلام قبول کرلیا لیکن سوال یہ کہ اگر یہ دونوں قتل کر دیئے گئے ہوتے تو کیا ہوتا؟
کلیورن کی کتاب تکمیل کے آخری مراحل سے گزر رہی ہے جس کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس نے کہا ہے کہ اس کتاب کے قارئین کو میرے اسلام مخالف ہونے سے اسلام قبول کرنے تک کا سفر بھی اسی کتاب میں مل جائے گا۔
اس کتاب کا مطالعہ یقیناً ایک ناقابل فراموش تجربہ ہو گا لیکن اسے پڑھے بغیر بھی یہ بات تو پورے اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ تعصب سے بڑھ کر جہالت بلکہ لعنت ممکن نہیں ۔کسی بھی عقیدہ یا نظریہ کے حق یا مخالفت میں اسے سمجھے جانے بغیر ڈٹ جانا دوسروں کے ساتھ ہی نہیں خود اپنے ساتھ بھی کسی ظلم سے کم نہیں۔غیر مسلموں کو تو چھوڑیں خود بہت سے مسلمانوں کے ساتھ بھی یہ ٹریجڈی ہے کہ سنی سنائی باتوں کے بل بوتے پر زندگیاں گزارتے ہیں اور کبھی کھوکھلے پن کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
آج تقریباً تیس بتیس برس بعد مجھے نعیم نامی اک کردار یاد آ رہا ہے جو انتہائی پرجوش مسلمان تھا اور بات بات پر لڑنے مرنے کو تیار ہو جاتا ۔اس بھلے مانس کے ساتھ دوستی نہیں، فقط شناسائی تھی اس لئے جب غائب ہوا تو میں نے نوٹس تک نہ لیا۔دو ڈھائی سالہ وقفہ کے بعد ملا تو خوشی کے ساتھ حیرت بھی ہوئی کیونکہ وہ مکمل طور پر تبدیل ہو چکا تھا حالانکہ اس کے حلیےمیں کوئی تبدیلی نہیں تھی۔ ایک دن میں نے یونہی رواروی میں اسے کہا کہ ’’یار!تیرے اندر کوئی بہت بڑی تبدیلی آئی ہے لیکن میں اپنی بے خبری، لاعلمی کی وجہ سے اس کی نشاندہی نہیں کر پارہا‘‘ تو شرمیلی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا ،....
’’سوائے اس کے کوئی تبدیلی نہیں آئی کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں‘‘میں نے حیران ہو کر پوچھا ’’تو پہلے کیا تھے؟‘‘ کچھ دیر چپ رہنے کے بعد بولا ....‘‘تھا تو تب بھی مسلمان ہی لیکن زبانی کلامی جیسے کوئی عطائی خود کو ڈاکٹر پوز کرے یا معمولی سا مستری خود کو انجینئر کے طور پر پیش کرے۔میری اکلوتی کوالیفکیشن صرف یہ تھی کہ میں نے ایک مسلمان گھرانے میں جنم لیا اور چند پریکٹسز کو ہی اسلام سمجھتا رہا ۔ دو سال سارے کام چھوڑ کر مکمل یکسوئی کے ساتھ قرآن پاک اور سیرت النبی ؐ کا مطالعہ کیا...بس یہی تبدیلی ہو گی اور کیا ہو گا۔‘‘
سچ یہ کہ یہی بہت بڑی تبدیلی ہے میں نہ مبلغ ہوں نہ اس دور میں تبلیغ کو اس طرح دیکھتا ہوں جس طرح اس وقت دیکھتا تھا جب دنیا سکڑ کر مٹھی میں نہ سمائی تھی ۔اب تو علم سے لیکر انفارمیشن تک ایک ’’ٹچ‘‘ کے فاصلے پر رہ گئے ہیں۔کیا ہی اچھا ہو ا گر ہم سب بھی کلیورن بن جائیں اور جہاں اتنا کچھ کرتے ہیں وہاں ترجمہ (اردو، انگریزی) کے ساتھ خود قرآن پاک پڑھ لیں اور سیرت النبی ؐ پر چند کتابیں بھی تو میرا ایمان ہے کہ ہمارے ایمان بھی تازہ ہو جائیں گے اور اگر پڑھتے وقت صرف جنت کے لالچ اور جہنم کے خوف کے ساتھ ساتھ خود زندگی بھی سامنے ہو تو یہ ممکن نہیں کہ ہماری زندگیاں نہ بدل جائیں اور اگر زندگی کا اسلوب بدل جائے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ معاشرہ تبدیل نہ ہو جائے ۔
یہی وہ تبدیلی ہے جسے اپنے اندر تلاش کرنا چاہئے۔
Comments
Post a Comment