Health

 کامسیٹس اور نیشنل سینٹر طبیعات کے فیلو شپ پروگرام کے تحت پاکستان میں مکمل کیے جانے والے شعبہ فزکس کے ڈاکٹریٹ مقالہ کو بین الااقوامی جریدے نے نمایاں طور پر شائع کردیا ہے  

 یہ تحقیقی مقالہ نائیجیریا کے طالب علم ڈاکٹر رافیل ممادوکا اوبوڈو کا نے لکھا تھا 


Photograph taken on the occasion of awarding PhD degree to Nigerian student, Dr. Raphael Mmaduka Obodo from University of Nigeria, on completion of his research work at the National Centre for Physics. Director General National Center for Physics, Dr. Hafeez-ur-Rehman Hoorani is awarding degree under COMSATS Joint Fellow ship program for young scientists.
اسلام آباد  ( ہدف نیوز) عالمی شہرت یافتہ سائنسی جریدے سائنس ڈائریکٹ نے پاکستان میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے نائیجیریا کے طالب علم ڈاکٹر رافیل ممادوکا اوبوڈو کا تحقیقی مقالہ نمایاں طور پر شائع کیا ہے ۔نائیجیریا کی یونیورسٹی سے آئے ہوئے ڈاکٹر رافیل ممادو کا اوبوڈو نے اپنا یہ مقالہ جنوبی خطے میںپائیدار ترقی کیے قائم سائنس اور ٹیکنالوجی کمیشن ، کامسیٹس اور نیشنل سینٹر برائے طبیعات کے مشترکہ فیلوشپ پروگرام کے تحت مکمل کیا ۔پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے ڈاکٹر اوبوڈو نے آئن بیم پر کیے گئے تجربات پر اپنا تحقیقی کام پروفیسر ڈاکٹر فیبین آئی ایزیما کی نگرانی میں کامیابی سے مکمل کیا۔ ڈاکٹر فیبین نیشنل سینٹر برائے طبیعات (این سی پی) میں جاری اُن تحقیقی منصوبوں میں مدد گار کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں جو نائیجیریا یونیورسٹی کے شعبہ طبیعات اور فلکیات سے متعلقہ ہیں۔ مشترکہ فیلوشپ پروگرام کا یہ معاہدہ  2016 میںطے پایا تھا،اور اب اسی معاہدے کے تحت ڈاکٹر رافیل ممادوکا اوبوڈو نے اپنا تمام تحقیقی کام، طبیعات کے قومی مرکز میں مکمل کیا۔یاد رہے کامسیٹس کے ستائیس رکن ممالک کے نوجوان سائنسدان اس فیلو شپ معاہدے سے استفادہ کررہے ہیں،جس میں سائنسی معلومات کے اشتراک، تبادلے اور ٹیکنالوجی کی منتقلی میںسہولت فراہم کرنا بھی شامل ہے۔علاوہ ازیں کامسیٹس نے جنوبی جنوب میں ترقی پذیر ممالک کے لیے اسپانسر شپ پروگرام قائم کر رکھا ہے اور اس پروگرام کے ذریعے، کامسیٹس افراداور تنظیموں کو تحقیق، مطالعہ اور ٹریول گرانٹ کی شکل میں اُن کی سائنسی صلاحیتوں کو بڑھانے اور بیرون ملک روابط قائم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے تاکہ شمال اور جنوب میں سہ رخی ترقیاتی تعاون کو فروغ حاصل ہو۔ اس پروگرام سے اب تک کامسیٹس کے رکن اور غیرکن ممالک کے 700 سے زیادہ سائنس دانوں اور اداروں نے فائدہ اٹھایا ہے۔میٹیریل سائنس فار انرجی ٹیکنالوجیز کے عنوان سے شائع ہونے والے اس مقالے میں ڈاکٹر اوبوڈو نے اپنی تحقیق کے دوران یہ معلوم کیا ہے کہ تانبے کی ہرمختلف مقدار اپنی آئن شعاع ریزی (تابکاری) کے دوران تانبے کی نینو جسامت کی خصوصیات پر مختلف اثرات مرتب کرتی ہے۔اس تحقیق نے اس بات کو سمجھنے میں آسانی پیدا کردی ہے کہ ریڈی ایشن کی کم مقدار سے بھی نینو الیکٹرو مکینیکل اور آپٹیکل الیکٹرانکس کی ایپلی کیشنز میں نینواسٹریکچرز کی الیکٹرو کیمیکل خصوصیات کو برقرار رکھنے میں نمایاں مدد ملتی ہے۔


موٹے بچوں میں دمے کے مرض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے

ڈرہم ، نارتھ کیرولینا: 


امریکی ماہرین نے کہا ہے کہ موٹاپا بچوں میں دمے کے مرض کی وجہ بن سکتا ہے اور اس ضمن میں ایک طویل سروے کیا گیا ہے جس میں لگ بھگ 5 لاکھ بچوں کا کئی سال تک مطالعہ کیا گیا ہے۔

سروے کے نتائج سے ظاہر ہوا ہے کہ دمے کے شکار بچوں میں 23 سے 27 فیصد (تقریباً ایک چوتھائی) بچے موٹاپے کے شکار تھے اور وہ دمے کے مریض بھی تھے۔ اس سے یہ امید بھی پیدا ہوئی ہے کہ بچوں کو فربہی سے بچاکر دمے جیسے تکلیف دہ مرض سے دور رکھا جاسکتا ہے۔
ڈیوک یونیورسٹی اور بچوں کے قومی صحت کے مرکز نے مشترکہ طور پر یہ تحقیقی مطالعہ کیا ہے تحقیق میں شامل پروفیسر جیسن لینگ کہتے ہیں،’دمہ وہ مرض ہے جو بہت دیر تک بچوں سے چمٹا رہتا ہے جس کی وجہ وراثتی، جینیاتی اور بچپن میں وائرس سے متاثر ہونا بھی ہے جسے ہم نہیں روک سکتے ۔ تاہم موٹاپا وہ شے ہے جسے دور کرکے لاکھوں بچوں کو دمے کی تکلیف سے بچایا جاسکتا ہے۔‘


اس طرح بچوں کو موٹاپے سے بچانے اور انہیں جسمانی ورزش میں مصروف رکھنے کی ایک اور اہم وجہ بھی سامنے آگئی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں میں صحتمند وزن کس قدر ضروری ہے۔
اس سروے میں پورے امریکہ میں موجود بچوں کی صحت کے چھ مراکز میں 507,496 کے ڈاکٹروں کے پاس 19 لاکھ وزٹ کو نوٹ کیا گیا ہے جس کا دورانیہ 2009 سے 2015 تک تھا اور اس ڈیٹا کو ایک بڑے نیٹ ورک میں ڈال کر اس سے نتائج اخذ کئے گئے۔
سروے میں ایسے بچوں کو موٹا قرار دیا گیا جن کا باڈی ماس انڈیکس ان کی عمر اور جنس کے لحاظ سے 95 فیصد بلند تھا۔ ایسے بچوں میں دمے سے شکار ہونے کا خدشہ ازخود 30 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ لیکن یہاں معلوم ہوا کہ موٹاپے کی بجائے اگر بچوں کا وزن معمول سے ذیادہ تھا ان میں بھی دمے کا خطرہ موجود پایا گیا۔ اس کی تصدیق سانس کے ٹیسٹ اور دیگر کیفیات سے کی گئی ۔
ماہرین نے کہا ہے کہ اس والدین ہر ممکن طور پر اپنے بچوں کا وزن معمول پر لانے کی کوشش کریں کیونکہ یہ کئی امراض سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔جس کی تفصیلات پیڈیاٹرکس نامی جرنل میں 26 نومبر کو شائع ہوئی ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

تھانہ صادق آباد اور نادرا سنٹر کے احکام کے سامنے سادہ عوام کو لوٹا جارہا ہے

راولپنڈی:پٹواری رشوت لیتے رنگے ہاتھوں گرفتار