ابتدائی100ایام، ن لیگ کے مقابلے میں پی ٹی آئی کہیں نظر نہیں آتی

اسلام آباد (ہدف) اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تحریک انصاف کی حکومت نے خود کو 100دن کی مدت پوری کرنے کے بعد آڈٹ کیلئے پیش کر کے تاریخ رقم کردی ہے۔ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت نے 25مئی 2018کو عام انتخابات سے قبل 6تھیمز اور 39اقدامات پر مشتمل ایجنڈا پیش کیا تھا۔ اگرچہ تمام دانشوروں اور معاشی پنڈتوں کا خیال ہے کہ کسی بھی حکومت کی کارگردی جانچنے کیلئے 100دن کا وقت بہت تھوڑا ہے تاہم یہ ضرور دیکھا جاسکتا ہےکہ ریاست کے معاملات درست ہاتھوں میں ہیں یا نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس تھوڑے سے وقت میں یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ آیا درست سمت میں جن اقدامات کے لینے کی ضرورت تھی وہ لئے گئے یا نہیں۔ اس حساب سے تحریک انصاف کے ابتدائی 100دنوں کی کارکردگی اور پالیسی اقدامات کا ن لیگ کی حکومت کے ابتدائی 100دنوں سے تقابل کیا جائے تو تحریک انصاف کی حکومت کہیں نظر نہیں آتی۔ 2013کے انتخابات جیتنے کے بعد اسحاق ڈار نے 7جون کو وزیرخزانہ کی حیثیت سے حلف اٹھایااور فوری طور پر عملی اقدامات لینے کیلئے ایک دن اور دو راتیں وزارت خزانہ میں گذاریں، جس کے بعد وہ 12جون کو وفاقی بجٹ لے کر آگئے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے حوالے سے انہوں نے 19اقدامات کا اعلان کیا تاکہ بیل آوٹ پیکیج لیا جاسکے۔ اسحاق ڈار 4جولائی 2013کو 6.4ارب ڈالرکا بیل آوٹ پیکج لینے میں کامیاب رہےجس کے باعث کوئی افراتفری اور غیریقینی کی صورتحال پیدا نہیں ہوئی۔ سب سے پہلا قدم جو انہوں نے اٹھایا وہ آئی پی پیز کو 483ارب روپوں کی ادائیگی تھی تاکہ 1700-1500میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکے۔ ن لیگ کے معاشی منیجروں کی ٹیم اسحاق ڈار کی قیادت میں صاف ذہن کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی کیونکہ حکومت میں آنے سے قبل انہوں نے بہت زیادہ ہوم ورک کیا ہوا تھا۔ وزارت خزانہ کے اعلی افسران نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر پس منظر میں کی جانیوالی طویل گفت و شنید میں اس تلخ حقیقت کا اعتراف کیا کہ اسد عمر جنہیں خوب پتا تھا کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت میں وزیر خزانہ ہوں گے، نے ملک کی معیشت سنبھالنے کیلئے کوئی ہوم ورک نہیں کیا ہوا تھا۔ معیشت سنبھالنے اور ملک کو افرا تفری سے نکالنے کے حوالے سے مختصر مدت کی مینجمنٹ میں اسد عمر ناکام رہے ہیں لیکن ان کی ٹیم طویل المدتی مینجمنٹ کے حوالے سے مستعد ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کے ڈالر کی قدر بڑھ گئی اور خاقان عباسی کے دور میں مجموعی طور پر اس کی قدر میں 30فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا جس کے نتیجے میں یہ روپے کے مقابلے میں 105سے بڑھ کر 115تک پہنچ گیاجبکہ نگراں حکومت کے دور میں ڈالر کی قیمت 125روپے تک جا پہنچی اور تحریک انصاف کی حکومت میں قوت فیصلہ نہ ہونے کے باعث یہ 135روپے تک جا پہنچا۔ افسران کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایف بی آر میں طویل عرصے سے منتظر ایکشن لیا ہے اور پالیسی ونگ کو انتظامیہ سے علیحدہ کردیا ہے اور کابینہ جلد ہی اس اقدام کی منظوری بھی دے دیگی۔ افسران نے کہا کہ اپنا منصب سنبھالنے کے بعد اسد عمر کو جاری کھاتوں کے خسارے جیسے بڑے مسئلے سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے تھی اور بیرونی ادائیگوں کے لئے رقم کا انتظام کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ پی پی دور حکومت میں جب شوکت ترین وزیر خزانہ تھے، انہوں نے فوری طور پر اس وقت کے 8.6فیصد جاری کھاتے کے خسارے سے نمٹنے کیلئے مقامی طور پر تیارکردہ منصوبہ نافذ کیا۔ تحریک انصاف کے ابتدائی 100دنوں میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 55فیصد کمی واقع ہوئی، مالیاتی خسارہ پچھلے سال کے 1.2فیصد کے مقابلے میں 1.4فیصد بڑھ گیا، محاصل کا 68ارب روپے کا ہدف حاصل نہ ہوسکااور اس میں محض 8-7فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، پی ایس ڈی پی میں ترقیاتی اخراجات میں 25فیصد کٹوتی کی گئی اور پنجاب کے ترقیاتی بجٹ میں 50فیصد کمی کی گئی جس کے نتیجے میں بےروزگاری میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ وزیراعظم کی سادگی مہم کے برخلاف اخراجات میں 17سے 19فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ سب سے اہم بات یہ کہ مہنگائی کی شرح 7فیصد تک پہنچ گئی۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں 75ڈالر فی بیرل کی سطح سے گر کر 50ڈالر فی بیرل سے بھی نیچے آگئیں جو کسی بھی طرح حکومت کیلئے بونس سے کم نہیں اور وقت بتائے گا کہ کس طرح حکومت کے معاشی منیجروں نے اس صورتحال سے ملکی معیشت کو فائدہ پہنچایا۔ تحریک انصاف کی حکومت کو اس لئے مالیاتی اور تجارتی خساروں کا ذمہ دار نہیں ٹہرایا جاسکتاکیونکہ یہ موجودہ حکومت کے اقدامات کا نتیجہ نہیں۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ واضح معاشی پالیسی کے ساتھ سامنے آئےکہ کیسے آگے بڑھنا ہے کیونکہ 100دنوں میں افراتفری اور غیر یقینی کی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہےاور تاجر برادری خاصی پریشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسد عمر کو پاکستان کی تاجر برادری کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ وزارت خزانہ میں اعلیٰ سرکاری افسران کا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے بات چیت نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئیں کیونکہ انکے مطالبات بہت سخت تھے۔ حکومت کو آئی ایم ایف سے قرضے کی بات چیت کئے بعد بجلی اور گیس کے نرخ بڑھا دینے چاہئیے تھے لیکن حکومت نے یہ اقدام پہلے ہی کرلیا۔ حکومت کو چین اور متحدہ عرب امارات سے دو سے تین ہفتوں تک پیکیج ملنے کی امید ہے۔ اگر نواز شریف کی سربراہی میں ن لیگ کے چار سالوں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جون 2017تک حکومت کی ٹھوس مالیاتی اور مالی پالیسیوں نے مثبت نتائج مرتب کئے۔ آپریشن ضرب عضب پر آنیوالے بڑے اخراجات جو 100ارب روپے سالانہ تک تھے، کے باوجود بجٹ خسارہ 8.2فیصد سے کم کر کے 5.8فیصد تک لایا گیا۔وفاقی ٹیکس وصولی جو سال 2013میں 3.38فیصد تک بڑھی تھی اس میں سال 2018تک 18فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اسی مدت میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری 1456ارب ڈالر سے بڑھ کر 2731ارب ڈالر تک پہنچ گئی اور بیرونی ترسیلات 13.92ارب ڈالر سے بڑھ کر 19.35ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ ن لیگ کی حکومت 11سال میں جی ڈی پی کی بلند شرح ترقی2017میں 5.3فیصد حاصل کرپائی اور یہ 2018میں بڑھ کر 5.8فیصد ہوگئی۔ جون 2017تک کے چار سالوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں استحکام رہااور اسلام آباد میں چار ماہ کے دھرنے کے دوران صرف ایک بار ڈالر کی قدر میں چار روپے کی کمی واقع ہوئی تھی۔ سال 2014، 2015، 2016اور 2017میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 98.81 روپے، 101.78روپے، 104.84روپے اور 104.84روپے رہی۔ روپے کی قدر میں استحکام ہی مہنگائی کی شرح میں کمی ، سود کی شرح میں کمی اور روز مررہ کے اخراجات میں معمولی اضافے کا باعث تھا۔ سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق 23.050ٹریلن روپے کا قرضہ جی ڈی پی کا 60.1فیصد بنتا ہے۔ آئی ایم ایف کا قرضہ، بیرونی اور مقامی قرضوں کی ادائیگی اکاونٹ نمبر ایک سے کی جاتی ہے۔اسحاق ڈار کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت کہتی ہے کہ حکومت پاکستان 30ٹریلین روپے کی مقروض ہے۔ سینئر حکومتی اہلکار کا یہ بھی کہنا تھا کہ ڈالر کی قدر میں اضافے کی بنیاد معاشی بنیاد ہونا چاہیے تھی اور پاکستانی مصنوعات کو بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں کے فرق کی وجہ سے جگہ نہیں مل رہی تھی جس کی وجہ سے ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوا اور وہ 135روپے کا ہوگیا جسے 120روپے تک ہونا چاہیے تھا۔ معروف ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق کا کہنا تھا کہ ڈالر کی قدر میں اضافہ ضروری تھا لیکن اسے 135روپے تک نہیں لے جانا چاہیے تھا اور 124روپے تک روکنا چاہیے تھا۔ ذاتی طور پر روپے کی قدر میں کمی کے حق میں نہیں، تاہم بعض اوقات بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں میں مقابلے کی خاطر ایسا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ ترقی پذیر معیشتیں کرنسی کی قدر سے فائدہ نہیں اٹھا پاتیں کیونکہ درآمدات مہنگی ہوجاتی ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

تھانہ صادق آباد اور نادرا سنٹر کے احکام کے سامنے سادہ عوام کو لوٹا جارہا ہے

راولپنڈی:پٹواری رشوت لیتے رنگے ہاتھوں گرفتار