آج کے روزنامہ جنگ بتاریخ 14-1-2019 کو سنیئر صحافی انصار عباسی صاحب کے کالم کی صفحہ تین پر اشاعت ہوئی’’تم جانتے نہیں میں کون ہوں‘‘ایک ٹی وی چینلز روپورٹر اور ایک بڑے نام کی صحافت کی داستان اشاعت ہوئی کیا مگر انصار عباسی صاحب نے تو اس بڑے نام کی خفیہ راض میں رکھا اور جناب کے بیٹ اور صحافت کی ٹھیکداری کا ذکر کیا مگر آج کل صحافت شاید ٹی وی سکرین پر دیکھے جانے والوں کے پاس ہی صحافت کی لائنس دیا گیا ہے جبکہ دیگر پس پردہ لکھنے والی صحافی نہیں جبکہ دوسری طرف آج کل نیشنل پر یس کلب کے الیکشن کے بعد ایک شور مچا ہوا ہے جعلی صحافت کا خاتمہ کیا جائے کیا ایسے لوگ جو ٹی وی سکرین پر اس لئے آتے ہیں کے وہ اپنے نام پر عام لوگوں اور تاجروں کو بلیک میل کر سکیں کیا ایسے لوگوں کو بھی صحافت کرنے کا حق حاصل ہے اور اگر اصولی پر دیکھا جائے تو جہاں اس صحافت سے منسلک ایسے لوگ جو بلیک میلنگ سے مال بنانے کیلئے ایک لمبے عرصے سے اس پیشے کے ساتھ منسلک ہیں اور سیاستدانوں کی کرپشن کے چارچے عام کرتے ہیں کیا ان کی اس فلیڈ میں آنے سے لے کر ابتک کے اثاثوں کی چھنٹ بین کیلئے بھی کوئی قانون بنایا جانا لازم نہیں 
اور کیا اس صحافی کا نام جس کا ایک تو ایک بڑے ٹی وی چینل سے وابستگی ہے دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور وزیراعظم عمران خان سے تعلق ہے کیا ایسے لوگوں کو صحافت کی کسی کیٹگری میں شامل کیا جانا ضروری سمجھیا جائے گا
اور کیا اس کالم کو پڑھنے کے بعد اس نام کا واضح ہونا ضروری نہیں
صحافی کا کام تو یہ ہونا چاہیں جس معاشرے کی برائی کو دیکھا جائے وہ عوام کے سامنے لائی ناکہ اس معاشرے کی برائی کو دیکھتے ہوئے اس برائی کے ساتھ جا کھڑا ہو
صحافی کا کام خبر دینا ہوتا ہے ناکہ صحافت کے نام پر گفٹ اور اپنے سہولیات کی بہتری کیلئے صحافت کا نام استعمال کیا جائے
یہاں صحافت کے نام پر بات سبزی فروٹ تک گفٹ میں دئیے جاتے ہیں
جعلی صحافت کے حوالے سے نعرہ تو لگایا جاتا ہے کیا ایسے صحافیوں کے نام بھی اس لسٹ میں شمار نہیں کیا جانا چاہیں؟
اس کام کو صحافتی کمیونٹی ضرور پڑھیں
یہ آج کی صحافت کیلئے لمحہ فکریہ ہے

Comments

Popular posts from this blog

تھانہ صادق آباد اور نادرا سنٹر کے احکام کے سامنے سادہ عوام کو لوٹا جارہا ہے

راولپنڈی:پٹواری رشوت لیتے رنگے ہاتھوں گرفتار