آخر مولانا فضل الر حمن ہیں کون؟

کہا جاتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نہ طاہر القادری ہیں کہ اسلام آباد آئیں گے اور ڈی چوک میں چند قبریں کھودیں گے۔کپڑے سکھانے کے لئے سپریم کورٹ کے دروازوں اور بورڑ پر لٹکائیں گے۔۔اور پھر دھرنے کا خرچہ سود سمیت واپس لے کر کینیڈا کے ٹھنڈے ٹھار ماحول میں جا کر اپنے مریدین کو کسی نئے انقلاب کی نوید سنائیں گے۔۔۔

مولانا نہ عمران خان ہیں کہ دو درجن مرد کارکنوں اور دو درجن خواتین کارکنوں کے ساتھ ڈی چوک میں آ کر میوزک کنسرٹ کریں گے۔۔۔کچھ شوخ اور چنچل لڑ کیاں خان سے شادی کے نعرے لگائیں گی۔شام کو محفل موسیقی ہوگی جسے دیکھنے اور انجوائے کرنے کے لئے صرف تحریک انصاف نہیں ہر جماعت کے نوجوان اس ماحول سے لطف اندوز ہونے کے لئے ڈی چوک میں جمع ہوں۔۔۔۔

سوال پیدا ہوتا ہے آخر مولانا ہیں کون اور اسلام آباد آنے سے کون سا انقلاب پرپا ہوگا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے تاریخ کے چند چیدہ چیدہ واقعات سے آشنائی بہت ضروری ہے۔۔۔۔مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کی سنجیدیگی۔جدو جہد اور قربانیوں کی داستان کے ادراک کے لئے ہمین 1857کی جنگ آزادی کا مطالعہ کرنا ہوگا جب علماء دیوبند انگریز سامراج کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش تو کرتے رہے لیکن انگریز سے کوئی ڈھیل نہیں کی۔

مولانا فضل الرحمن کے نظریات اور نظریات کے لئے جان و مال کی قربانی کی تاریخ کا ادراک کرنے کے لئے کالا پانی اور مالٹا کی جیلوں کے در و دیوار پر علماء دیوبند کے صبر اور قربانیوں کی رقم داستانوں کے بارے میں بھی جاننا ضروری ہے۔

مولانا فضل الرحمن کون ہیں اس بات کا جواب تلاش کرنے کے لئے دارلعلوم دیوبند کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کا ادراک بھی ضروری ہے۔۔۔
مولانا فضل الرحمن کون ہیں یہ جاننے کے لئے برصغیر پا ک و ہند سے لے کر وسط ایشیا ئی ریاستوں تک چلنے والی آزادی کی تحریکوں کا جاننا بھی ضروری ہے۔

مولانا فضل الرحمن کو جاننے کے لئے قیام پاکستان میں علماء دیوبند کے کردار اور ان کی قربانیوں کی داستانوں کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔۔

مولانا فضل الرحمن کو جاننے کے لئے قیام پاکستان کے بعد علماء کی قربانیاں،جہاد افغانستان اور ملک میں چلنے والی نظام مصطفی کی تحریک کے نشیب و فراز اور اس کے اثرات سے آگاہی حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔۔۔

مولانا فضل الرحمن کو جاننے کے لئے مفتی محمود کی سیاست اور ان کی جہد مسلسل کا علم ہونا بھی ضروری ہے۔۔۔.

تاریخ کے ان گوشوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں گے تو اپ کے سامنے جواب خود بخود سامنے آئے گا یہ آخر مولانا فضل الرحمن ہیں کون اور ان کے اسلام آباد آنے سے کیا کچھ بدلے گا۔
جو لوگ اس احتجاج کو طاہر القادری کا پلانٹیڈ دھرنا یا تحریک انصاف کو میوزکل شو تصور کر کے یہ سمجھ رہے ہیں کہ چند دن کا شور ہوگا پھر پی ٹی آئی کا زور ہوگا تو وہ لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن کی سیاست اور مزاج سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ مولاما نہ جذباتی فیصلے کرتے ہیں اور نہ کوئی ایسا فیصلہ کرتے ہیں کہ جس سے ان کی سیاست پر حرف آئے اور بے نتیجہ تحریک کا طعنہ ان کے حصے میں آئے،نہ تو ایسا ہے کہ عمران خان اور ان کے کارکنوں کے بد تمیزی سے مولانا بے برداشت ہوئے ہیں اگر بد تمیزی سے بے برداشت ہوتے تو آج سے ایک برس قبل ہی جذبات میں آکر اسلام آباد کی طرف مارچ کرتے،ایسا نہیں ہے،مولانا فضل الرحمن نے جذبات کی سیاست نہ کھبی کی ہے اور نہ ابھی کر رہے ہیں،اسلام آباد آنے سے قبل ایک برس تک انتہائی منظم اور سنجیدہ انداز میں بلوچستان سے گلگت بلتستان کے آخری کونے تک ایک ایک کارکن سے مشاورت ہوئی،ایک ایک کارکن کو تحریک کے نشیب و فراز اور مشکلات سے آگاہ کیا گیا اور تیاری کی گئی،ملک کے بڑے شہروں میں لاکھوں لوگوں پر مشتمل ملین مارچ کئے گئے پھر جا کر ایک برس بعد اسلام آباد آنے کا اعلان کیا گیا۔

حیرت تو اس بات پر ہے کہ بڑے بڑے سیاسی تجزیہ کار اور سیاسی زعما آج سے ایک برس قبل جب مولانا نے تحریک کا آغاز کیا تھا ان کی طاقت اور سنجیدہ سیاسی جدو جہد کا اندازہ لگا سکے اور نہ اب کسی کو ان کی اصل طاقت کا اندازہ ہے،حکومتی وزرا اب بھی طوفان بد تمیزی سے اپنے لئے تباہی کا نہ صرف ساماں تیار کر رہے ہیں بلکہ اپنی بونگیوں سے مولانا کی تحریک کو نتیجہ خیز بناتے جا رہے ہیں،حد تو یہ ہے کہ عمران خان جو اس وقت وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہیں،زہنی طور پر وہ اب بھی وزیر اعظم نہیں،وزیر اعظم ہوتے تو کسی وزیر اعظم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ملک کے ایک سیاسی رہنما کے لئے اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کریں۔

مولانا کو اس حد تک لانے میں کوئی ایک سبب نہیں کئی اسباب اور غلطیاں کار فرما ہیں،سب سے پہلے سیاسی نظام میں نا معلوم قوتوں کی مداخلت اور مداخلت بھی ایسی کہ جو ایک بچے کو بھی نظر آئے، ایک سیاسی جماعت کے پیار اور محبت میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں اور دینی قوتوں کو سیاسی نظام سے باہر رکھنا،جس کو ملک کے لئے مسیحا بنا کر آگے لایا گیا اس کاملک کی تباہی کا سبب بننا،الغرض مولانا کے اس مارچ اور تحریک کے پیچھے کوئی ایک عمل کارفرما نہیں بلکہ برسوں کی قومی غلطیاں اور جرائم ہیں جن کی بنیاد پر ملک کا اکثریتی دینی طبقہ یہ محسوس کر رہا ہے کہ انہیں مکمل دیوار سے لگایا جا رہا ہے.

.مولانا فضل الرحمن کی پارلیمنٹ میں سیاسی طاقت کم ہی سہی لیکن یہ ان کی بردبار اور سنجیدہ شخصیت کا اعجاز ہے کہ ملک کی بڑی چھوٹی تمام سیاسی جماعتیں انہیں اپنا سیاسی امام تصور کر چکیں ہیں،اور ان سیاسی جماعتوں کو معلوم ہے کہ مولانا اسلام آباد میں نہ تو طاہر القادری کی طرح قبریں کھودیں گے اور نہ عمران کی طرح میو زک کنسرٹ کریں گے بلکہ بوسیدہ سیاسی نظام جس نے ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچایا ہے اس نظام کی نماز جنازہ کی امامت کریں گے،

اب اگر اس سنجیدہ تحریک کو کوئی ہلکا لے رہا ہے تو اس سے بڑی حماقت اور کیا ہو سکتی ہے۔اب اس طوفان کو روکنا کسی کے بس میں نہیں۔ اسلام آباد کی طرف بڑھنے والے اس طوفان کے بارے میں اس وقت کچھ نہیں کیا گیا جب کچھ کرنے سے نتائج برآمد ہونے تھے۔گزشتہ ایک برس سے پورے ملک میں نکلنے والے ملین مارچ کا میڈیا بلیک آوٹ کر کے بالکل وہ طریقہ اختیار کیا گیا جیسے کبوتر بلی کو دیکھنے کا بعد کرتی ہے۔۔وہ وقت تھا جب فیصلہ ساز ادارے اس طوفان کی طاقت اور مستقبل میں سیاسی تبا ہی کا ادراک کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن سے مزاکرات کرتے لیکن آج کے سوشل میڈیا کے جدید دور میں بھی الیکٹرانک میڈیا کی سکرینوں کو مولانا فضل الرحمان کے لئے ممنوع کر کے یہ سمجھا گیا کہ سب ٹھیک ہوگا۔۔۔۔۔شاید یہ اندازے لگانے والے علماء دیوبند کی تاریخ سے مکمل نابلد ہیں۔۔

اب بھی ملک کے بڑے بڑے سیاسی احمق یہ کہہ کر دل کو تسلی دے رہے کہ مولانا ڈھیل کریں گے اور چند دن شور کر کے واپس جائیں گے دراصل ان کے سامنے طاہرلقادری کی دھرنی اور تحریک انصاف کے میوزکل شو کی مثالیں ہیں۔انہیں یہ خبر ہی نہیں کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا انسانوں کا سیلاب شہر اقتدار کی جانب بڑھنے والا ہے۔اس طوفان میں بہت کچھ بہنے والا ہے۔

اس طوفاں سے تحریک انصاف کی حکومت جائے گی یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے یہ تحریک بے نتیجہ مشق ہر گز نہیں بلکہ اس تحریک کے بعد ملک میں ایک نئی سیاست کا آغاز ہونے والا ہے جس میں پسند نا پسند کا عنصر نہیں ہوگا بلکہ عوام کے مینڈیٹ کا احترام ہوگا،دیکھا جائے تو مولانا فضل الرحمن اس وقت حقیقی معنوں میں ووٹ کی عزت اور عوام کے مینڈیٹ کے احترام کی تحریک چلا رہے ہیں ان کی اس تحریک کی کامیابی میں عوام کی کامیابی ہے پاکستان کی کامیابی ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

تھانہ صادق آباد اور نادرا سنٹر کے احکام کے سامنے سادہ عوام کو لوٹا جارہا ہے

راولپنڈی:پٹواری رشوت لیتے رنگے ہاتھوں گرفتار