جماعت اسلامی سیالکوٹ سٹی کےامیر سابق ایم پی اے اور سیالکوٹ بار کے سنیئر قانون دان ارشد محمود بگو صاحب کے ساتھ ان کے چیمبر میں ناصر ہاشمی ابتک نیوز،عبدالجبار ملک کپٹل ٹی وی ، وقاص چوہدری روزنامہ امت ، بینکر دوست عیسٰی خان صاحب اور بندہ ناچیز ملاقات

 جماعت اسلامی سیالکوٹ سٹی کےامیر سابق ایم پی اے اور سیالکوٹ بار کے سنیئر قانون دان ارشد محمود بگو صاحب کے ساتھ ان کے چیمبر میں ناصر ہاشمی ابتک نیوز،عبدالجبار ملک  کپٹل ٹی وی ، وقاص چوہدری روزنامہ امت ، بینکر دوست عیسٰی خان صاحب اور بندہ ناچیز ملاقات
 ارشدمحمود بگو
 ارشدمحمود بگوموجودہ جماعت اسلامی سٹی کے امیر اور ایک سنیئر قانون دان ہیں وہی سیالکوٹ عوام کیلئے کسی مسیحا ہیں وہی سیالکوٹ بار اپنے چیمبر میں بیٹھے اپنی عوام اورمجبورلوگوں کیلئے ہر وقت بطور کونسل اپنی خدمات سرانجام  دیتے نظر آتے ہیں۔
 ارشدمحمود بگوزمانہ طالب علم میں مسلم لیگ ن کے پلیٹ فام سے سیاست کا آغاز کیا اور ایک لمبے عرصے تک مسلم لیگ ن سے وبستہ رہے مگر علاقائی سیاست سمیت کئی بھی مسلم لیگ ن کے پلیٹ فام سے حصہ نہ لیا بطور کارکن ہی وابستگی رکھی ۔اور 1991 میں بطور کارکن جماعت اسلامی کے منشور اور جماعت نظم ضبط سے متاثر ہوتے ہوئے جماعت اسلامی میں چلے گئے اور جماعت اسلامی کے پرچم تلے جماعت کا پیغام سیالکوٹ میں عام کرنے لگے اس دوران 2002 میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف جمہوری نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا وہی مسلم لیگ ق کا وجود سامنے لایا گیا اس میں ارشد محمود بگو جن کا تعلق جماعت اسلامی سیالکوٹ سے تھا مشرف کے قریبی عزیز ہونے کی وجہ سے ان کو مسلم لیگ ق جوائن کرنے کیلئے ملاقات پر بلایا گیا اور پنجاب کی سطح پر اہم ذمہ داری دینے کی یقینی دہانی بھی دی گی مگر اس کے باوجود ارشد محمود بگو نے اپنی اصول پر سب کچھ قربان کرتے ہوئے جماعت اسلامی سے اپنی وابسگتی جاری وساری رکھی وہی مسلم لیگ ق جو مشرف کے اس دور میں ملک بھر سے کلین سویپ کر کہ اقتدار میں آئی تھی ارشد محمودبھگو نے جماعت اسلامی کے پرچم کے سائے تلے سیالکوٹ سے الیکشن میں حصہ لیا اور مسلم لیگ ق سمیت تمام جماعتوں کو سکشت دیتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے وہ جماعت اسلامی کو ارشد محمود بگو کی قیادت میں پنجاب اسمبلی میں جماعت اسلامی کی ترجمانی بھی کرتے نظر آئے وہی اپنے اصول پرستی کی وجہ سے جانے والے اس شخص کے سامنے ایک اور امتحان کھڑا ہوگیا مشرف نے عدلیہ پر پابندی لگادی گئی تھی جس پر وکلاءنے تحریک کا آغاز کیا جس میں ارشد محمود بگو نے بطور پروفیشنل اپنی وکلاء تحریک کی کامیابی اور  جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی تحریک کے ہر اول دستہ کردار ادا کیا حلانکہ دیکھا جائے مشرف نے ہر طرح سے اس شخص کو اپنے قریب کرنے کیلئے کوشش کی اس ایک بنیادی وجہ قریبی رشتہ ہونے کی وجہ بھی تھا مگر ان تمام تر کوششو کو باوجود ارشد محمود بگو کی اصول پرستی کو توڑا نا جا سکا اور بلاآخر مشرف کو افتخار محمد چوہدری کو بحال کرنا پڑا ۔وہی پنجاب اسمبلی کے ایوان میں ایک طرف پوری مسلم لیگ ق کی کابینہ اور دوسری طرف جماعت اسلامی اپنے 9 ایم پی ایز کے ساتھ کھڑی تھی وہی ارشد محمود بگو اپنی جماعت کی صیح معنوں میں ترجمانی کرتے نظر آتے تھے اگر دیکھا جائے بطور پروفیشنل میں نے بے شمار وکلاء اور جوڈیشنل کے لوگوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا مگر کسی نے بھی اپنے پروفیشن اور اپنے کام پر کبھی کسی دوست کو ترجیح نہیں دی اور اگر بطور تعلق اور دوستی کو مدنظر رکھتے ہوئے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ہمارا ہر طرح سے تعلق آپ سے ضرور ہے مگر پروفیشن پر کسی بھی حوالے سے اگر تعلقات نبھاتے رہے تو  اس حوالے معذرت خواہ ہیں مگر بطور پروفیشن ارشد محمود بگو کو ابتک کی ہونیوالے وکلاء شخصیات میں سب سے الگ دیکھا جنہوں نےایک پیشہ ور وکیل کے طور پر سول عدالتوں سے سپریم کورٹ تک کے سفر میں جہاں اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا وہی غریبوں اورمظلوموں کیلئے ہمیشہ ایک مسیحا کا کردار ادا کیا اور سیالکوٹ بار میں کئی غریبوں کے کیسوں کی فیس تک نہیں لی جاتی بلکہ ان کی ذاتی جیب سے مدد بھی کی جاتی ہے بطور صحافت سے وابستگی یہ تحریر آنکھوں دیکھا سلسلہ لکھا جارہا ہے ناکہ سوالات اور جوابات کے سلسلے میں لکھی تحریر ہے اس کی ایک بڑی مثال کیونکہ میرا تعلق ضلع راولپنڈی سے جبکہ ارشد محمود بگو جن کا تعلق سیالکوٹ سے جبکہ ان کے ساتھ ملاقات کا شرف عدلیہ بحالی تحریک سے ہوتے ہوئے سابق جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کی رہائش تک کا رہا اور ہمارے ایک صحافی دوست جن کو سیالکوٹ پولیس بے گناہ ہوتے ہوئے راولپنڈی سے رٹ کرتے ہوئے اور گھر کی چار دیواری کو پامال کرتے ہوئے سیالکوٹ لے گئی اور ڈی پی او سیالکوٹ کی تمام تر یقین دہانی کے باوجود ہمارے بے گناہ صحافی کو جیل میں شناختی پریڈ کی میں ڈال دیا گیا وہی 14 دن بے گناہ جیل کاٹی وہی جیل سے رہا ہونے کے بعد مکمل طورپر اس کیس کو ختم کر دیا گیا جبکہ اس کیس میں ایک صحافی کو بے گناہ گرفتاری پرسیالکوٹ پولیس کے اے ایس آئی کو عدالت نے ایک سال کی سروس سمت ہر طرح کی مراحت ختم کرنے کافیصلہ جاری کیا وہ سیالکوٹ پولیس نے اپنے پٹی بھائی کاغصہ نکالنے کیلئے ایک بار پھر بے گناہ صحافی دوست کو ورانٹ گرفتاری جاری کر دئیے اور اس تمام صورتحال میں سیالکوٹ بار ایک منجھے ہوئے سنیئر قانون دان جو سخت مصروفیات ہونے کے باوجود اس کیسے میں ہر طرح کی مدد سمیت اس کیس کیلئے ہمارے ساتھی کے بطور کونسل اپنی قانونی خدمت دی وہی اس کیس اور تاریخ کے حوالے سے سیالکوٹ ان کے چیمبرز جانا ہوا ہرطرح ہمارے رہنمائی کی وہی ہم دوستوں کو رہائش سمیت ہر طرح کی تواضع بھی کی جاتی رہی حلانکہ ہمارا سیالکوٹ شہر سے نا تو دور دور تک تعلق رہا اور نا ہی کوئی سورس رہا مگر شاید جب اس سارے سلسلے میں ارشد محمود بگو صاحب کو دیکھا تو سوچا کاش ہمارے ملک میں اس شخصیت جیسے چند افراداور اس وکالت کے شعبے میں آجاتے تو شاید عدلیہ میں مزید بہتری آتی ارشد محمود بگو جیسی شخصیت شاید صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔
میری دعا ارشد محمود بگو صاحب کو اللہ پاک لمبی عمر صحت و تندرستی اور ان کا سایہ ہم سب پر قائم ودائم رکھیں



Comments

Popular posts from this blog

تھانہ صادق آباد اور نادرا سنٹر کے احکام کے سامنے سادہ عوام کو لوٹا جارہا ہے

راولپنڈی:پٹواری رشوت لیتے رنگے ہاتھوں گرفتار