ماہین بلوچ کے ممولے، جن کا والی وارث پندرہ برس کی ماہین کے سوا کوئی نہیں تھا، پہلے انعام کے حقدار ٹھہر گئے



ماہین سترہ برس کی بچی ہے۔ صرف سترہ برس۔ اندازہ کیجیے کہ یہ بچی روزانہ لیاری کے ستر بچوں کو بلا معاوضہ پڑھاتی ہے۔ گلیوں سے بچے پکڑ پکڑ کر لاتی ہے، اس سے پہلے کہ وہ منشیات کے عادی ہوجائیں، ماہین انہیں پینسل کٹر اور ریزر سے اٹھنے والی مہک کے نشے میں مبتلا کر دیتی ہے۔ آپ میرا یقین کیجیے یہ بچی یہ تک پرکھ لیتی ہے کہ میرے کس شاگرد کو قدرت نے کن مہارتوں سے مالا مال اتارا ہے۔ ماہین کسی کی ریاضی سنوار رہی ہے تو کسی کے ننھے وجود میں چھپے آرٹسٹ کو آشکار کر رہی ہے۔ کسی کی انگریزی درست کر رہی ہے تو کسی کی الجبرا سدھار رہی ہے۔ باپ کرائے کے پیسے بچا کر بچوں کے لیے کتابیں خرید رہا ہے، بیٹی ان بچوں کو پڑھا رہی ہے۔ ماہین فخر سے کہہ رہی ہے ’’سر ان بچوں میں سے بہت سے اب اسکول جا چکے ہیں‘‘۔ میں نے کہا تھا نا کہ اس سترہ برس کی بچی کا کردار تعلیمی پراجیکٹس پر کام کرنے والی بیس این جی اوز پر بھاری ہے؟ کراچی ادبی میلے میں دستاویزی فلم کا ایک مقابلہ ہوا۔ اس مقابلے میں اسکول کے بچوں نے اساتذہ کی نگرانی میں حصہ لینا تھا۔ ماہین نے لیاری کی گلیوں سے کچھ ممولے اٹھائے اور شاہینوں سے لڑوانے پہنچ گئی۔ ایک فلم تیار کی جس کا عنوان ’’ہم انتہاپسندی کو شکست دیں گے‘‘ رکھا۔ جو اساتذہ تعلیمی اداروں سے اپنے شاگردوں کو لائے تھے، وہ دیکھتے رہ گئے اور ماہین بلوچ کے ممولے، جن کا والی وارث پندرہ برس کی ماہین کے سوا کوئی نہیں تھا، پہلے انعام کے حقدار ٹھہر گئے
 سترہ برس
ماہین

Comments

Popular posts from this blog

تھانہ صادق آباد اور نادرا سنٹر کے احکام کے سامنے سادہ عوام کو لوٹا جارہا ہے

راولپنڈی:پٹواری رشوت لیتے رنگے ہاتھوں گرفتار