۔۔۔۔۔۔۔۔میں نامعلوم ہوگیا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔نامعلوم صحافی



۔۔۔۔۔۔۔۔میں نامعلوم ہوگیا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔
کاش یہ سوال نہ اٹھتا میں اپنی ذات کو کٹہرے میں نہ لاتا خود سے استفسار نہ کرتا کہ میں کون ہوں ؟مصنوعی وقار کے جھولے میں جھولتا رہتا،جعلی انا کے خول میں بند رہتا ،مصلحتوں کی زنجیریں پہنے مست ملنگ بن کر زندہ ہے صحافی زندہ ہے کے نعرے لگاتا رہتا 
میں کون ہوں ؟دیکھنے کی صلاحیت ہے مگر اندھا ہوں مجھے کبھی دکھائ نہیں دیا کہ ایک جیسے وسائل اور مسائل کے درمیان جیتے میں دو وقت کی روٹی کا محتاج ہوگیا مگر یہ اعتراض اٹھانے والے راتوں رات کروڑ پتی بن گئے ہر روز میری مصیبت اور ان کی دولت بڑھتی ہے
میں کون ہوں ؟ بول سکتا ہوں مگر گونگا ہوں ان سے نہیں پوچھتا ہوں کہ میرا تیل نہیں جلتا ان کا پانی کیسے جل جاتا ہے یہ کیا معجزہ ہے کہ میں مالکان کی آنکھ میں کھٹکتا ہوں اور یہ ان کی آنکھوں کے تارے ہیں میں ایک ادارے سے نکالے جانے کے بعد مہینوں بےروزگاری کا عذاب جھیلتا ہوں اخباری عقوبت خانوں کی سیڑھیوں پر جوتیاں چٹخاتے ہیں جبکہ پرکشش ملازمتیں ہاتھ باندھیں ان کےگھروں کے باہر قطار لگا لیتی ہیں 
میں کون ہوں ؟قوت سماعت ہے مگر بہرہ ہوں مزاکرات کے نام پر بند کمروں میں کبھی مالکان تو کبھی حکومت وقت کے آگے ہمیں بیچ دیا گیا مگر ہمیں دکھائ دیا نہ سنائ 
میں کون ہوں؟میں ان کو ووٹ دے کر منتخب کرتا اور پھر انجان بن جاتا کہ یہ مالکان کے ٹاؤٹ بلکہ ان کے رسہ گیر بن کر ان کے مکروہ دھندوں کا دفاع کرتے اور میرے جیسے صحافیوں کے سچ کو زنجیروں سے جکڑ دیتے 
انہوں نے درست کہا میں کون ہوں انسان ہو یا ربورٹ ہوں زندہ ہوں یا زندہ رہنے کی اداکاری کر رہا ہوں یہ گوشت بیچیں زمینوں کی دلالی کریں کمیشن ایجنٹ بن کر لوگوں کے کام کروائیں سرکار سے رعایتیں سمیٹیں میں سچ کا علمبردار ایک پتلی بنا زندہ باد کے نعرے لگاؤں 
میں جو نامعلوم ہوں کیا اسے سب معلوم نہیں ہے پھر بھی اگر میرے لب خاموش تھے تو ان کی مہربانی انہوں نے مجھے نامعلوم لکھا انہیں مجھے بدھو ،ملنگ،پاگل،سادھو،بھولا یا اس جیسے کسی لفظ کا حقدار ٹھہرانا چاہیے تھا
کیا مجھے احتساب اداروں کا راستہ پتہ نہیں کیا ایف بی آر کورٹ کچہریاں میرے لئیے اجنبی ہیں کیا میرے ہاتھ میں قلم نہیں جب میں نے اپنی منشاء سے ہاتھ قلم کر لئیے تو ان پر تنقید کیوں کروں
ایک طرف موت کے لالے ہوں دوسری طرف کچھ چہروں کی لالی ساری کہانی نہیں سنا رہی ہم زبردستی ہنسنا بھی چاہیں تو منہ سے کراہ نکل جاتی ہے ان کے گونجتے قہقے پس دیوار کھیل کا احوال نہیں سنا رہے
انکا حق ہے میری ذات پر سوال اٹھائیں،طعنہ زنی کریں،میرا تمسخر اڑائیں میری کون سی تضحیک ہے؟میری کون سی توہین ہے؟میں ان کا مشقتی ہوں،میں ان کا لٹھ بردار ہوں،میں ان کا قصیدہ خوان ہوں ،میں بےگار میں نعرے لگانے والا ہاری ہوں میں شاید کبھی تھا ہی نہیں میں نے اپنے ہاتھوں اپنا گلہ گھونٹ 
دیا
میں اپنا آپ کھوجنے جاؤنگا مجھے اپنی شناخت ڈھونڈنی ہے میں لاپتہ ہوگیا ہوں نامعلوم ہوگیا ہوں مجھے ان مداریوں،بہروپیوں،مفادیوں کے چنگل سے نکلنا ہے میں شاید اپنے مقصد سے بھٹک گیا تھا مجھے سچ کا پہرہ دینا ہے اور نقب اتارنے ہیں 
(تمام نامعلوم صحافیوں کی خود کلامی)

Comments

Popular posts from this blog

تھانہ صادق آباد اور نادرا سنٹر کے احکام کے سامنے سادہ عوام کو لوٹا جارہا ہے

راولپنڈی:پٹواری رشوت لیتے رنگے ہاتھوں گرفتار