Posts

Showing posts from June, 2019

تبدیلی کو رونا رویا جارہا ہے

کسی کے نزدیک شیعہ اگر واجب القتل ہو تو شیعہ کے نزدیک وہ ہار پہنائے جانے کے قابل نہیں ہو سکتا. یہ اس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے والا معاملہ ہے.

Image
میرے فیس بک کے دوست احباب اور فالورز میں 90 فیصد کے ہاں آج جو مشترک بیان پڑھنے کو ملا وہ یہی تھا کہ بلال خان ہماری فرینڈ لسٹ میں تھا اور شدت پسند اور نفرت انگیز خیالات کے پرچار کی وجہ سے ہم نے اسے انفرینڈ کر دیا تھا لیکن آج اس کے قتل پر ہمیں افسوس ہے اور دل دکھا ہے. کسی کے مختلف خیالات پر اسے جان سے مار دینے کا کوئی جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا. دوسری جانب مشال خان کے ناحق قتل پر جواز پیش کرنے والے آج بھی نفرت سے بھرے بیانات داغنے میں مصروف میں. اس دنیا کو واقعی اگر کسی چیز س ے خطرہ ہے تو وہ مذہبی انتہا پسندی ہے. یہ وہ کارڈ ہے جو کوئی بھی کہیں بھی استعمال کر سکتا ہے. پانی پلانے سے شروع ہونے والا چند خواتین کا جھگڑا, اس کارڈ کے ذریعے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے, یہ کارڈ ایک صوبے کے گورنر کو اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں قتل کروا سکتا ہے, یہ کارڈ معافیاں مانگتے کسی اقلیتی جوڑے کو زندہ جلا دینے کے غیر شرعی عمل کو کار ِ ثواب بنانے کا کام بھی کر سکتا ہے. یہ کارڈ ایک قاتل کو ہیرو اور ایک ہیرو کو زیرو بنانے کی اہلیت رکھتا ہے. کون کب کس کو کافر یا گستاخ قرار دے کر مار ڈالا کوئی خبر نہی
Image
ڈاکٹر روتھ فاؤ دنیا سے دلہن بن کر رخصت ہوئی تھی ڈاکٹر روتھ فاؤ نے موت سے قبل تین خواہشات کا اظہار کیا، پہلی یہ کہ ان کا علاج کسی صورت وینٹی لیٹر پر نہیں کیا جائے گا، دوسری یہ کہ جب وہ مر جائیں گی تو ان کی میت کو لپریسی (کوڑھ) سینٹر لایا جائے گا۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ کی یہ دونوں خواہشات پوری کی گئیں، میت لپریسی کوڑھ سینٹر آئی تو ہچکیاں بندھ گئیں اور آخر یہ ہچکیاں کیوں نہ بندھتیں۔ کیونکہ جذام کوڑھ کے مریض کا تصور بھی گھناؤنہ ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک سچ ہے جسے آپ کوئی بھی معنیٰ پہنا دیں، یہ سچ رہے گا، کوڑھ کے مریض کے جسم کی بدبو اور اس کے بدن سے رستا لیس دار مادہ ناقابل برداشت ہوتا ہے مگر ڈاکٹر روتھ فاؤ کے لیے یہ گھناؤنا نہیں تھا، وہ ایسے مریضوں کو اپنے ساتھ لپٹا لیتی تھی، جن سے سب گھن کھاتے، سسٹر روتھ فاؤ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتیں۔ اور جب ایسے مریضوں کی مسیحا دنیا سے رخصت ہوئی تو صف ماتم بچھ گئی، میت کلینک آنے پر لوگ دیواروں کا سہارا لے کر ہچکیوں سے زاروقطار رورہے تھے۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ نے مرنے سے پہلے ایک خواہش یہ بھی کی تھی کہ انہیں عروسی لباس میں دفن کیا جائ

سابق صدر آصف علی زرداری کی گرفتاری کے بعد کوئی کرپٹ جج ،جنرنلسٹ ،جنرل ،س...

Image

عنوان ؛ غیرت سبب ؛ شک نتائج؛ ندامت

Image
ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﻟﮩﺮ ﺳﯽ ﺍﭨﮭﯽ ﺩﺭﺩ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ۔ ﺍﻣﯽ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ ﺍﻣﯽ ﻧﮯ ﺩﻭﺍﺉ ﺩﯼ ﺗﻮ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺍﻓﺎﻗﮧ ﮨﻮﺍ۔ ﭘﮭﺮ ﺩﺭﺩ ﮐﺎ ﻧﮧ ﺣﺘﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺗﮭﺎ۔ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﺎﺭ ﺗﻮ ﺍﻟﭩﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺳﺐ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﺏ ﺍﺳﮯ ﺷﮏ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﭘﯿﭧ ﺑﮍﮬﺘﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﺭﺩ ﺑﮭﯽ۔ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﺋﯿﮯ ﺗﮭﮯ ﺑﺘﺎ ﮐﺲ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻨﮧ ﮐﺎﻻ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺁﺉ ﮨﮯ۔ﯾﮧ ﺩﺭﺩ ﺍﺗﻨﺎ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﺩﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺟﺘﻨﺎ ﺳﺐ ﮐﺎ ﺑﮯ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﮨﻮﻧﺎ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁ ﮨﺴﺘﮧ ﺳﺐ ﻧﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯼ۔ ﮐﺒﮭﯽ ﺟﻮ ﺍﮐﻠﻮﺗﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺍﮐﻠﻮﺗﯽ ﺑﮩﻦ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﻧﺎﺯ ﺍﭨﮭﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺁﺝ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﮔﻮﺍﺭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻣﯽ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮨﻠﮑﯽ ﺳﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﭘﺮ ﺗﮍﭖ ﺍﭨﮭﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺁﺝ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﻣﺎﻧﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻗﺼﻮﺭ ﺷﺎﯾﺪ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﻗﺼﻮﺭ ﺍﺱ ﺳﻮﭺ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﯿﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ﻭﮦ ﺩﺭﺩ ﺳﮯ ﺗﮍﭘﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺟﻮﺍﺏ ﮨﻮﺗﺎ ﺟﺲ ﮐﺎ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﺘﺎ۔ ﻇﻠﻢ ﺍﺱ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺑﮍﮪ ﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﺟﻮ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﮯ ﻟﺌﯿﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﮐﺮﻥ ﮨﻮﺗﮯ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﺋﮯ ﺗﻠﮯ ﺍﻭﻻﺩ ﺣﻮﺩ ﮐﻮ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﻭﮨﯽ ﻣﻮﺕ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻟﮓ

آپ کو پتا ہے دس سال سے ذیادہ ہوگئے ہیں اور پروفیسر صاحب کی بیوی اب بھی حیات ہے ۔۔ اور پروفیسر صاحب اب باقاعدہ سیمینارز میں جاتے ہیں اور دھماسہ کی افادیت اور کینسر پر پریزینٹیشنز دیتا ہے ۔۔۔۔ اس کے پاس ان مریضوں کی باقاعدہ لسٹ تھی جو شفایاب ہوچکے تھے۔۔۔

Image
میں نے ایک کہانی سنی تھی کہ اسلام آباد کے اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ کے ایک پروفیسر کی بیوی کو کینسر کی بیماری لاحق ہوگئی ۔ تشخیص کے ساتھ ہی ڈاکٹرز نے معذرت کی اور یہ کہہ کر مذکورہ پروفیسر کو چلتا کیا کہ آپ کی بیوی صرف پندرہ بیس دنوں کی مہمان ہے ۔۔ اس کا علاج اب کسی کے بس کی بات نہیں ۔ یہ بات عام طور پر قیامت ڈھاتی ہے اور جس کا مجھے خود بھی پتا ہے کیونکہ اس قیامت سے میں ہزار بار گزرا ہوں ۔ اتنی آسانی سے کوئی کیسے مان لیں کہ مریض چند دنوں کا مہمان ہے اس لئے اس کو گھر میں رکھنا ہی بہتر ہے ۔۔بہرحال ڈاکٹرز بھی علمی بنیادوں پر فیصلے کرتے ہیں ۔۔ دوسرے عام لوگوں کی طرح پروفیسر بھی مان نہیں رہا تھا اور منت سماجت میں لگ گیا ۔۔ ڈاکٹروں نے لاکھ سمجھایا لیکن نتیجہ " وہی ڈھاک کے تین پات '' والی صورتحال ۔۔ خیر ڈاکٹرز نے مریض کو داخل کیا اور وہ بھی صرف خون کی منتقلی کے لئے ۔۔ پروفیسر صاحب کو لیگل ڈاکومینٹیشن کا کہا گیا اسی لئے وہ اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کی طرف پلک جھپکتے ہی پہنچ گیا ۔ اب یہاں سے اصل کہانی شروع ہوتی ہے ۔۔.........