ڈاکٹر روتھ فاؤ دنیا سے دلہن بن کر رخصت ہوئی تھی
ڈاکٹر روتھ فاؤ نے موت سے قبل تین خواہشات کا اظہار کیا، پہلی یہ کہ ان کا علاج کسی صورت وینٹی لیٹر پر نہیں کیا جائے گا، دوسری یہ کہ جب وہ مر جائیں گی تو ان کی میت کو لپریسی (کوڑھ) سینٹر لایا جائے گا۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ کی یہ دونوں خواہشات پوری کی گئیں، میت لپریسی کوڑھ سینٹر آئی تو ہچکیاں بندھ گئیں اور آخر یہ ہچکیاں کیوں نہ بندھتیں۔
کیونکہ جذام کوڑھ کے مریض کا تصور بھی گھناؤنہ ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک سچ ہے جسے آپ کوئی بھی معنیٰ پہنا دیں، یہ سچ رہے گا، کوڑھ کے مریض کے جسم کی بدبو اور اس کے بدن سے رستا لیس دار مادہ ناقابل برداشت ہوتا ہے مگر ڈاکٹر روتھ فاؤ کے لیے یہ گھناؤنا نہیں تھا، وہ ایسے مریضوں کو اپنے ساتھ لپٹا لیتی تھی، جن سے سب گھن کھاتے، سسٹر روتھ فاؤ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتیں۔
اور جب ایسے مریضوں کی مسیحا دنیا سے رخصت ہوئی تو صف ماتم بچھ گئی، میت کلینک آنے پر لوگ دیواروں کا سہارا لے کر ہچکیوں سے زاروقطار رورہے تھے۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ نے مرنے سے پہلے ایک خواہش یہ بھی کی تھی کہ انہیں عروسی لباس میں دفن کیا جائے اور وہ سرخ جوڑا پہن کر جب تابوت میں لیٹی تھیں تو دنیا جہان کا سکون ان کے چہرے پر تھا۔
روتھ فاؤ ساری زندگی دلہن نہیں بنیں، وہ ایک مسیحی راہبہ تھیں، انہوں نے اپنے عقیدے کے مطابق اپنے خداوند یسوع مسیح کی رضا کے لیے دنیا کو تیاگ دیا، نفس کی خواہشات سے اجتناب کیا مگر مرنے کے بعد ان کو کوئی ڈر نہیں تھا اور وہ لباس جسے پہننے کی آرزو ہر عورت میں ہوتی ہے، گو بعد از موت زیب تن کیا مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ڈاکٹر روتھ فاؤ دلہن نہیں بنی تھیں۔
کیھتولک گھرانے سے تعلق ہونے پر ایک کرسچن نن نے مسلمانوں کی ایسی خدمت کی کہ معلوم تاریخِِ میں شاید اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ وہ پاکستانی نژاد نہیں مگر کسی بھی پاکستانی سے بڑھ کر ایک پاکستانی تھیں، تقریباً 1988ء میں اس وقت کی پاکستانی حکومت نے دخترانِ پاکستان ڈاکٹر روتھ فاؤ کو شہریت دینے کا اعزاز دیا۔
خوب صورت آنکھوں والی انتیس سال کی حسین جرمن لڑکی ڈاکٹر روتھ فاؤ نے 1960ء میں کراچی کی کچی بستی میں قیام کا فیصلہ کیا تو سب حیران رہ گئے تھے۔ اور یہ قیام بھی اس لئے کہ وہ کوڑھ مریضوں کی بستی ختم کرنا چاہتی تھی، آئی آئی چندریگر روڈ سے متصل بستی جہاں آج ریلوے کالونی ہے، وہاں لوگ کوڑھ کے مریضوں کو لاعلاج سمجھ کر ڈال دیتے تھے اور وہ سسک سسک کر وہاں ہی مرتے رہتے تھے۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ نے اس بستی کے قریب ایک کلینک بنایا، وہ یسوع مسیح کی ایک قابل فخر پیروکار تھیں، وہ بائیبل مقدس کے مطابق اس عظیم الشان مشن کا حصہ تھی، انہوں نے کسی مسلمان یا ہندؤ کو مسیح تو نہ کیا، کوڑھ مریضوں کی پوری بستی کا خاتمہ ضرور کردیا کہ آج وہاں کے مکینوں کو بھی نہیں یاد کہ یہاں کوڑھ مریضوں کی کبھی کوئی بستی ہوا کرتی تھی۔
کیا اتنی خوب صورت لڑکی کا یوں تنہا قیام کرنا محفوظ تھا؟ جب ڈاکٹر روتھ فاؤ سے یہ سوال کیا تو وہ شرارتی انداز میں مسکرائیں اور کہا کہ لوگ کوڑھ کے مریضوں سے گھن کھاتے تھے اور وہ اپنی حفاظت کے لئے کوڑھ کے مریضوں کے ساتھ سوتی تھیں تو کوئی گھن کی وجہ سے ان کے قریب نہیں آتا تھا۔😁
وہ کرسچن مسیحی نن پاکستان میں اپنی زندگی کے 50 سے زائد سال ایک چھوٹے سے کمرے میں رہیں، چارپائی نما بستر اور سرہانے رکھا کولر۔ میز پر چند کتابیں اور سامنے ٹیبل پر رکھے کچھ برتن۔ روتھ فاؤ نے اپنی کبھی کوئی تشہیر نہیں چاہی، وہ خاموشی سے کام کرتی رہیں اور اسی خاموشی کے ساتھ وہ دنیا سے رخصت ہوگئیں، عالمی اداروں نے 1996ء میں پاکستان کو لپریسی کوڑھ کنٹرول کرنے والا ملک قرار دے دیا۔
جو جیسا ہے، اسے ویسا رہنا چاہئیے، روتھ فاؤ نے اپنے نجات دہندہ یسوع مسیح کے خدا کی رضا کے لئے اپنی ساری زندگی وقف کردی، انہیں اپنی مرضی یا خواہش میں ڈھالنا اس مسیحا سے نا انصافی ہوگی۔ کسی ڈاکٹر کے لئے فرض نہیں کہ وہ اپنی ساری زندگی تج دے، اپنا عیش وآرام بھلا کر خود کو ایک مقصد کے لئے وقف کردے، لیکن اس وقت جوان ڈاکٹر روتھ فاؤ نے یہ سب ابن مریم کے خداوند کے لئے کیا، اسی مذہبی جذبے نے انہیں قوت دی اور ایک مسیحی نن کے اسی جذبے سے مسلمانوں کو بے انتہا فائدہ ہوا۔
ذرا تصور کریں۔۔۔! اس ملک پاکستان میں جن مسیحیوں کو ہم میں سے اکثر اپنا بدترین دشمن سمجھتے ہیں، ان میں سے ایک نیک روح ہمارے درمیان آتی ہے اور وہ کسی کو یہ نہیں کہتی کہ مسیحی ہوجاؤ، وہ بس سر جھکا کر ان لوگوں کی خدمت کرتی ہے جن میں سے اکثر اس کے مذہب کے دشمن بھی ہیں۔
اہل کتاب کا انبیاء اور کتابوں پہ اختلاف ہے مگر خدا پہ نہیں، مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں کا خدا ایک ہے، ڈاکٹر روتھ فاؤ نے اپنے عمل سے محبت کا پیغام دیا ہے، وہ شاید صرف یہ بتانے آئی ہے کہ اپنے عقیدے پہ کاربند رہو مگر دوسروں سے عقائد کی بنیاد پہ نفرت مت کرو۔
روتھ فاؤ نے جذام کا تو پاکستان سے تقریباً خاتمہ کردیا مگر وہ یہ بات نہیں جانتی تھیں کہ ہمیں مذہبی انتہاپسندی کا ذہنی جذام چاٹ چکا ہے۔ 
ہم دل سے محترمہ ڈاکٹر روتھ فاؤ کی لازوال قربانیوں کو خراج تحسین اور خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں⁦❣️


Comments

Popular posts from this blog

تھانہ صادق آباد اور نادرا سنٹر کے احکام کے سامنے سادہ عوام کو لوٹا جارہا ہے

راولپنڈی:پٹواری رشوت لیتے رنگے ہاتھوں گرفتار