طوائف کون؟

ایک عورت کن مراحل سے گزر کر ایک طوائف کا روپ دھار لیتی ھے ۔یہ جاننا میرے لئے اہم تھا کیوں کہ میں طوائف کے موضوع پر لکھنا چاہتا تھا ۔اس سلسلے میں لاہور کے ایک دوست نے ایک طوائف سے میری ملاقات کے لئے وقت ترتیب دیا ۔میں نے کیمبلپور سے لاہور کے لئے رخت سفر باندھا ۔لاہور پوھنچ کر دوست مجھے ایک گنجان آباد علاقہ کی طرف لیکر چل پڑا ۔تنگ و تاریک گلیوں سے ھوتے ہوئے ایک مکان کے سامنے رک گیا اور دستک دی ۔اندر سے ایک خوب صورت حسینہ نے دروازہ کھولا اور لکھنؤ کی طوائفوں کی طرح اداب بجا لایا ۔

دوست مجھے چھوڑ کر واپس چل دیا ۔وہ طوائف مجھے لیکر اندر چلی گیئی اور صوفہ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔وہ خود سامنے والے صوفہ پر براجمان ہو گیئی ۔میں نے ترچھی نظر سے اسکی طرف دیکھا ۔وہ بلا کی حسین تھی ۔
اس نے پانی کا گلاس میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا صاحب آپ کے دوست بتا رہے تھے آپ ایک لکھاری ہو ۔میں نے فاخرانہ انداز سے عاجزی اختیار کرتے ہوئے کہا ۔جی بس ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کرتا ہوں ۔اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا طوائف پر لکھنے کے لئے آپ نے کیمبلپور سے لاہور تک کا سفر کیوں کیا حلانکہ آپ کو کیمبلپور میں بھی سینکڑوں طوائفيں مل سکتی تھیں ۔میں نے غصے سے اسکی طرف دیکھا ۔اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا اس نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا اور اپنے خوب صورت ہونٹوں سے ایک دائرے کی مانند دھواں چھوڑتے ہوئے کہا ۔صاحب آپ بھی لنڈے کے لکھاری لگتے ہو ۔ایک کامیاب لکھاری اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھتا ھے ۔اسکی بات سن کر میرے ماتھے پر پسینہ نمودار ہونا شروع ہوا لیکن اسکی اتنی دانشمندانہ گفتگو مجھے حیران کر رہی تھی ۔
وہ جیسے جیسے بول رہی تھی ویسے ویسے اسکے گال غصے سے سرخ ہو رہے تھے ۔اس نے پانی کا ایک گھونٹ پیا پھر بولی ۔صاحب جج یہاں انصاف بیچ رہا ھے لیکن قابل نفرت صرف جسم فروش عورت ھے ۔سیاست دان یہاں اپنا ضمیر بیچ رہے ھیں لیکن انکو آپ لیڈر مانتے ھیں جب کہ ایک مجبور طوائف کی جسم فروشی آپ کو چبھتی ھے ۔یہاں ڈاکٹر موت کا کاروبار کر رہے ھیں لیکن آپ کی نظر میں وہ مقدس پیشہ ھے ۔یہاں پولیس رشوت لے کر جھوٹے مقدمات بناتی ھے اور جعلی مقابلوں میں قتل عام کرتی ھے لیکن قابل نفرت صرف طوائف ھے جو اپنے پیٹ کے جہنم کی آگ بجھانے کے لئے اپنا جسم بیچتی ھے ۔
اسکے گال اسکے ہونٹوں پر لگی سرخی سے زیادہ سرخ ہو چکے تھے ۔میرے ماتھے کی شکنوں پر پسینہ ٹھہر کر قطرہ قطرہ یوں نیچے گر رہا تھا جیسے بارش میں کسی غریب کے کچے مکان کی چھت ٹپکنے لگتی ھے ۔
وہ اٹھ کر میرے قریب ایی اور رومال میری طرف بڑہاتے ہوئے کہا صاحب ہم طوائفیں تو مرد نما بھیڑیوں کو لذت کا سامان مہیا کرتی ھیں ۔جس معاشرے میں آپ رہتے ھیں وہاں ایک طوائف کا وجود کسی نعمت سے کم نہیں ۔میں نے اسکی یہ بات سن کر ہلکا سا مسکرایا اور دل ھی دل میں سوچا کہ ایک طوائف کیسے اپنی جسم فروشی کا دفاع کر رہی ھے ۔اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا اگر ہم طوائفیں ان مرد نما بھیڑیوں کی آگ ٹھنڈی نہ کریں اور انکو لذت کا سامان مہیا نہ کریں تو یہ بھیڑے بنت حوا کی معصوم کلیوں کو بھی مسل ڈالیں اور انکا گوشت نوچ کر کھا جایں ۔
میں جو دل میں کیی سوال لیکر کیمبلپور سے چلا تھا وہ سب گم سے ہو گے تھے ۔وہ مسلسل بول رھی تھی اور میں جو خود کو لکھاری اور دانشور سمجھتا تھا ایک طوائف کی گفتگو کے سامنے لا جواب نظر آ رہا تھا ۔
وہ اٹھ کر میرے قریب بیٹھ گیئی اور میرے گال پر ہلکی سی تھپکی دیتے ہوئے کہا ۔صاحب آپ نے کتے کو پانی پیتے ہوئے کبھی دیکھا ھے ۔
اس اچانک سوال پر میرے منہ سے ھاں نکلی اور میں نے دل میں سوچا کہ شاید یہ خوب صورت طوائف بھت زیادہ غصے میں ہو تو ہوش و حواس کھو بیٹھتی ھے ورنہ یہاں کتے کے پانی پینے کی بات کی کوئی تک نہیں تھی ۔
اس نے سگریٹ کا کش لیکر میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا صاحب اس شہر کے بڑے بڑے لوگ جو مسیحایی کا لبادہ اوڑھ کر آپ جیسوں کو بیوقوف بناتے ھیں جب ہمارے پاس آتے ھیں تو ہمارے پاؤں کے تلوے اس طرح چاٹتے ھیں جیسے کتا پانی پیتا ھے ۔
یہ که کر اس نے دیوار پر لگی گھڑی کی طرف دیکھا اور کہا اب آپ جاؤ صاحب ابھی ہمارے گاہکوں کا وقت ہو گیا ھے ۔
میں خاموشی سے اٹھا اور دروازے کی جانب چل دیا ۔اس نے پیچھے سے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا صاحب اگر لکھاری بننا ھے تو جسم فروش طوائفوں پر نہیں بلکہ ضمیر فروش طوائفوں پر لکھا کرو ۔پھر آپ کو کںیمبلپور سے لاہور بھی نہیں آنا پڑے گا ۔اپنی قلم میں جرات پیدا کرو ورنہ تم بھی لنڈے کے لکھاریوں میں شمار کئے جاؤ گے ۔
یہ که کر اس نے اپنی آنکھوں سے اشارہ کیا جیسے مجھے باہر جانے کا که رہی ہو

Comments

Popular posts from this blog

تھانہ صادق آباد اور نادرا سنٹر کے احکام کے سامنے سادہ عوام کو لوٹا جارہا ہے

راولپنڈی:پٹواری رشوت لیتے رنگے ہاتھوں گرفتار